Urdu poetry

‎میں نے کہا وہ پیار کے رشتے نہیں رہے
‎کہنے لگی کہ تم بھی تو ویسے نہیں رہے.

‎پوچھاگھروں میں کھڑکیاں کیوں ختم ہوگئیں؟
‎بولی  کہ  اب وہ  جھانکنے  والے  نہیں رہے.

‎پوچھا کہاں گئے مرے یارانِ خوش خصال
‎کہنے لگی کہ وہ بھی تمہارے نہیں رہے.

‎اگلا سوال تھا کہ مری نیند کیا ہوئی؟
‎بولی تمہاری آنکھ میں سپنے نہیں رہے.

‎پوچھا کروگی کیا جو اگر میں نہیں رہا؟
‎بولی یہاں تو تم سے بھی اچھے ، نہیں رہے.

‎آخر وہ پھٹ پڑی کہ سنو اب مرے سوال
‎کیا سچ نہیں کہ تم بھی کسی کے نہیں رہے.

‎گو آج تک دیا نہیں تم نے مجھے فریب
‎پر یہ بھی سچ ہے تم کبھی میرے نہیں رہے.

‎اب مدتوں کے بعد یہ آئے ہو دیکھنے
‎کتنے چراغ ہیں ابھی ، کتنے نہیں رہے!

‎میں نے کہا مجھے تری یادیں عزیز تھیں
‎ان کے سوا کبھی ، کہیں اُلجھے نہیں رہے.

‎کیا یہ بہت نہیں کہ تری یاد کے چراغ
‎اتنے جلے،کہ مُجھ میں اندھیرے نہیں رہے.

‎کہنے لگی تسلّیاں کیوں دے رہے ہو تم
‎کیا اب تمہاری جیب میں وعدے نہیں رہے.

‎بہلا نہ پائیں گے یہ کھلونے حروف کے
‎تم جانتے ہو ہم کوئی بچّے نہیں رہے.

‎بولی کریدتے ہو تم اُس ڈھیر کو  جہاں.
‎بس راکھ رہ گئی ہے ، شرارے نہیں رہے.

‎پوچھا تمہیں کبھی نہیں آیا مرا خیال
‎کیا تم کو یاد یار پرانے نہیں رہے.

‎کہنے لگی میں ڈھونڈتی تیرا پتہ ، مگر
‎جن پر نشاں لگے تھے ، وہ نقشے نہیں رہے.

‎تیرے بغیر شہرِ سخن سنگ ہو گیا
‎ہونٹوں پہ اب وہ ریشمی لہجے نہیں رہے.

‎جن سے اُتر کے آتی دبے پاؤں تیری یاد
‎خوابوں میں بھی وہ کاسنی زینے نہیں رہے.

‎میں نے کہا ، جو ہو سکے ، کرنا ہمیں معاف
‎تم جیسا چاہتی تھیں ، ہم ایسے نہیں رہے.

‎ہم عشق کے گدا ، تیرے در تک تو آ گئے
‎لیکن ہمارے ہاتھ میں کاسے نہیں رہے.

‎اب یہ تری رضا ہے،کہ جوچاہے، سو کرے
‎ورنہ کسی کے کیا ، کہ ہم اپنے نہیں رہے

Post a Comment

0 Comments

Close Menu